Orhan

Add To collaction

کسی مہرباں نے آ کے

کسی مہرباں نے آ کے 
از قلم ماہ وش چوہدری
قسط نمبر6

ضرار گھٹنوں میں سر دئیے رو رہا 
تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زندگی میں پہلی بار رویا تھا وہ ایک لڑکی کی وجہ سے۔۔۔۔۔وہ لڑکی جو اسکی بیوی تھی۔۔۔۔۔۔
اپنی پچیس سالہ زندگی میں پہلی بار وہ کسی لڑکی کے قریب ہوا تھا۔۔۔۔۔۔وہ بھی اسے بیوی بنا کر۔۔۔۔اپنی ساری توجہ۔۔۔۔۔ساری چاہ اس پر نچھاور کی۔۔۔وہ سب کیا۔۔۔وہ  سب دیا۔۔۔۔جو کوئی بھی بیوی ملنے پر خدا کا شکر ادا کرتے نا تھکتی مگر سیمل نے  بہت برا کیا۔۔۔۔۔۔۔۔اس شخص کے ساتھ جو  اس  کی زندگی میں ایک مہرباں بن کر آیا تھا۔۔
اسے عزت دی۔۔۔محبت دی۔۔۔۔اسکی غلطیوں کو درگزر کیا۔۔۔مگر وہ بدقسمت اسی مہرباں کی عزت داغدار کر گئی۔۔۔۔وہ اسے ہی دھوکہ دے گئی۔۔۔۔
حیرت ہی حیرت تھی سیمل کی اتنی گندی اور گری سوچ پر جو بجائے شکروصبر کرنے کے گنہگار ہو گئی تھی۔۔۔۔۔۔
وہ بھی ایک بدکردار مرد کے لیے۔۔۔۔۔
            ………………………………………………
ضرار جب دل کھول کر رو چکا تو اندر بڑھا گرینی کے پاس۔۔۔
مگر گرینی کو زمین پر گرے پا کر اس کے رہے سہے اوسان بھی جاتے رہے۔۔۔۔۔۔
وہ جلدی سے گرینی کے نحیف وجود کو بازؤں میں بھر کر ہوسپٹل بھاگا۔۔۔۔۔
          ………………………………………………
ڈاکٹر نے گرینی کی بےہوشی کی وجہ سٹریس بتائی تھی۔۔
تو کیا وہاں جو بھی ہوا گرینی وہ سب جان گئیں ہیں۔۔۔۔؟؟؟
نہیں اگر گرینی کو کچھ ہوا تو میں تم دونوں کو ہر گز زندہ نہیں چھوڑوں گا۔۔۔
نہیں چھوڑوں گا میں تم دونوں کو۔۔۔۔۔ضرار جگہ کی پرواہ کیے بغیر اُردو میں بلند آواز سے چلایا 
اردگرد بیٹھے لوگوں نے حیرت سے اسے چلاتے دیکھا مگر وہ سب گورے بات سمجھنے سے قاصر تھے۔۔۔۔۔
اتنے میں نرس نے اطلاع دی کہ گرینی کو ہوش آ گیا ہے۔۔۔۔وہ تیز تیز قدم اٹھاتا روم کیطرف بڑھا۔۔۔
گرینی بیڈ کی بیک سے ٹیک لگا کر تھوڑی سی اوپر  اٹھی بیٹھیں تھیں۔۔
کیسی طبیعت ہے گرینی۔۔۔۔وہ پاس آ کر بولا
سیمل کہاں ہے۔۔۔۔؟؟گرینی نے نحیف سی آواز سے پوچھا
وہ۔۔۔۔۔وہ گرینی۔۔۔۔سیمل گھر پر ہے۔۔۔۔ضرار نے انکی طبیعت کے پیش نظر جھوٹ بولا
نکال دو اُسے۔۔۔۔نکال دو اُسے گھر سے ضرار وہ۔۔۔۔وہ اس قابل نہیں۔۔۔۔وہ تمہارے قابل نہیں۔۔۔گرینی روتے ہوئے اٹک اٹک کر  بول رہی تھیں
پلیز گرینی سٹریس مت لیں ۔۔۔میں نکال دوں گا اُسے۔۔۔آپ اپنی طبیعت خراب مت کریں
نہیں تم ابھی جاؤ اور جا کر اُسے۔۔۔۔وہ رُکیں
گرینی میں نے نکال دیا ہے اسے گھر سے بھی اور اپنی لائف سے بھی ہمیشہ کے لیے۔۔۔۔۔پلیز آپ ٹینشن مت لیں۔۔۔۔ضرار گرینی کا ہاتھ تھپتھپاتے بولا
ہاں ٹھیک کیا وہ۔۔۔وہ اچھی نہیں تھی۔۔۔۔وہ۔۔۔۔دھوکہ دے رہی تھی۔۔۔۔وہ فصی کیساتھ۔۔۔۔۔
میں جانتا ہوں گرینی ۔۔۔۔۔بلکہ سب دیکھ چکا ہوں ۔۔۔۔اسی لیے ڈائیورس دے دی ہے اسے۔۔۔۔۔
رئیلی۔۔۔۔۔تم نے چھوڑ دیا اُسے۔۔۔۔وہ حیران ہوئیں
یس۔۔۔۔۔
آپ پلیز ریسٹ کریں۔۔۔۔ڈاکٹر نے آج آپ کو گھر لے جانے سے منع کیا ہے۔۔۔۔۔۔
ہونں۔۔۔۔اچھا کیا ۔۔۔۔۔گرینی پرسکون سی سر ہلاتیں سیدھی ہو گئیں 
ضرار ان کے پاس ہی چیئر پر بیٹھ گیا
       ……….………………………………………
ضرار گرینی کو میڈیسن دے کر سُلا کر واپس گھر آ گیا تھا۔۔۔
کمرے میں داخل ہوتے ہى اسکی نظر وال پر ٹنگی تصویر پر پڑی۔۔۔۔
جس میں وہ سیمل کے کندھوں پر بازو پھیلائے اسے ساتھ لگائے کھڑا تھا۔۔۔یہ تصویر ملائیشیا ان کے ہنی مون ٹرپ پر لی گئی تھی۔۔۔
ضرار نے جھٹکے سے اُسے زمین بوس کیا۔۔۔۔جو گر کر کرچی کرچی ہو چکی تھی۔۔۔
اب وہ وارڈ روب کیطرف بڑھا۔۔۔۔۔ وہاں موجود سیمل کی ایک ایک چیز نکال کر واش روم میں پھینکی اور پھر سب کو اکٹھا کر کے آگ لگا دی۔۔۔۔
اس عمل سے فارغ ہو کر وہ واپس کمرے میں آیا۔۔۔۔۔بیڈ پر بچھے کورز جھٹکے سے اتارے۔۔۔۔۔۔ڈریسنگ ٹیبل پر پڑی لیڈیز کاسمیٹکس کو ہاتھ مار کر نیچے گرایا۔۔۔۔۔
اب وہ مٹھیوں میں بال جکڑے خود کو آئینے میں دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔اُسے خود سے بھی گھن آ رہی تھی کہ اُس نے ڈیڑھ سال اس عورت کیساتھ گزارے ہیں جو اسکی  غیرموجودگی میں ناجانے کتنی بار اسکی عزت کا جنازہ نکال چکی ہو گی۔۔۔۔۔
نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ایک دھاڑ کے ساتھ ضرار نے آئینے پر مکا مارا۔۔۔۔۔جس سے ناصرف شیشیہ کریک ہوا بلکہ اسکا اپنا ہاتھ بھی لہولہان ہو گیا مگر ضرار کو کوئی پرواہ نہ تھی اس  تکلیف کی۔۔۔
وہ دیوانوں کی طرح کمرے کی ایک ایک چیز توڑ رہا تھا۔۔۔۔۔وہ ان سب چیزوں کو توڑ دینا چاہتا تھا جن کو سیمل چھو چکی تھی۔۔۔۔
جب سب کچھ ٹوٹ بکھرا
 تو۔۔۔۔۔تو وہ خود کو شاور کے نیچے کھڑا کر چکا تھا۔۔۔۔۔
اب وہ خود کو پاک کر لینا چاہتا تھا جس نے بارہا اسکے وجود کو چھوا تھا۔۔۔۔۔۔۔وہ اپنے جسم کو رگر رگر کر دھو رہا تھا۔۔۔۔۔جیسے اپنے وجود سے سیمل کی نظر نہ آنے والی گرد کو دھو دینا چاہتا ہو۔۔۔۔
         ………………………………………………
اگلے دن وہ گرینی کو گھر لے آیا تھا۔۔۔۔زندگی پھر سے پہلے ہی کی طرح ہو گئی تھی۔۔۔۔آفس۔۔۔۔گھر اور گرینی ۔۔۔۔۔یہی تین چیزیں پہلے تھیں اسکی لائف میں اور یہی اب رہ گئی تھیں۔۔۔۔
مگر وہ خود  بہت بدل گیا تھا۔۔۔۔۔۔ہسنا ،ہنسانا تو جیسے بھول چکا تھا وہ۔۔۔۔۔ہمہ وقت سنجیدگی طاری کیے رکھتا چہرے پر گرینی سنبھال رہی تھی اسے مگر اس پر کسی چیز کا اثر نہیں تھا۔۔۔۔
سموکنگ اڈیکٹر بنتا جا رہا تھا۔۔۔۔گرینی اسے بارہا شادی کا کہہ چکیں مگر شادی کے نام پر وہ ایسا چڑتا کہ اردگرد موجود ہر چیز کرچیوں میں بدل کر دم لیتا۔۔۔۔
گرینی اُسکی حالت دیکھ کر پریشان ہوتی رہتیں۔۔۔۔وہ ضرار جسے غصہ چھو کر نہیں گزرتا تھا اب وہی ضرار کوئی بات تحمل سے نہیں کرتا تھا ماتھے پر ہر وقت تیوری چڑھی رہتی یوں جیسے ہر چیز کو قدموں تلے روند دینا چاہتا  ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عجیب سی اکھڑ شخصیت میں بدل چکا تھا وہ۔۔۔۔۔۔
         ………………………………………………
اس واقعے کے ایک سال بعد گرینی بھی ضرار کو چھوڑ گئیں۔۔۔اب وہ بلکل اکیلا رہ گیا تھا۔۔۔۔۔۔
گھر کی تنہائی سے بےزار ہو کر وہ ساری ساری رات سیگرٹ ہاتھ میں لیے انگلینڈ کی سڑکوں پر پھرتے گزار دیتا۔۔۔۔۔۔
اب وہ سکون کی خاطر اور اپنی پیچھلی مانندہ زندگی کو بھولنے کی خاطر کبھی کبھی شراب پینا بھی شروع کر چکا تھا۔۔۔
انہی دنوں عالم شاہ پاکستان سے انگلینڈ آئے اور بیٹے کی حالت دیکھ کر دنگ رہ گئے۔۔۔۔یہ۔۔۔یہ ہر گز ضرار نہ تھا۔۔۔۔یہ تو کوئی اور ہی بن گیا تھا۔۔
وہ فورس کر کے اسے اپنے ساتھ پاکستان لے آئے تھے۔۔۔
اماں جان(دادی)کے پیار بھرے رویے نے ضرار کو بہت ڈھارس دی تھی اور وہ کافی حد تک خود کو کمپوز کر چکا تھا۔۔۔۔۔
گرینی اور سیمل کے بعد اماں جان وہ تیسری عورت تھیں جن کے قریب وہ ہو گیا تھا۔۔۔۔۔
وہ چھ سات ماہ حویلی میں گزار کر اسلام آباد آ گیا تھا۔۔۔۔۔جہاں اس نے عالم شاہ کی مدد سے اپنا ٹیکسٹائل بزس شروع کیا۔۔۔۔اور پوری لگن اور توجہ سے اتنے کم عرصے میں خود کو اسلام آباد کے ٹاپ بزنس مینز میں شامل کر لیا تھا۔۔۔۔
وہ اسلام آباد میں ہی گھر لے چکا تھا ہر ماہ میں ایک دفعہ حویلی جا کر اماں جان اور عالم شاہ سے مل آتا۔۔۔۔۔۔۔
بزنس کے علاوہ بھی کافی ایکٹیویٹیز میں انوالو ہو کر خود کو مصروف کر چکا تھا۔۔۔۔اکثر نائٹ کلب بھی جاتا تھا۔۔۔۔۔
جہاں اسے ابیہا ہاشم ملی تھی۔۔۔۔
اسے دیکھ کر ضرار کو نفرت محسوس ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔ جو وہاں اپنی عزت کا سودا کرنے آئی تھی۔۔۔۔۔مگر اسکی مجبوری سن کر ناجانے کیوں ضرار کو اس پر ترس آیا کہ وہ بنا سوچے سمجھے دس لاکھ کا چیک لے کر اُس کے پیچھے بھاگا تھا۔۔۔۔۔
اُسے تو سیمل کی گھناؤنی حرکت نے ہر لڑکی سے نفرت میں مبتلا کر دیا تھا تو پھر کیوں وہ اس لڑکی کے پیچھے بھاگا تھا۔۔۔
جسے وہ جانتا نہ تھا۔۔۔۔جس سے وہ پہلی بار ملا تھا۔۔۔۔
اس نے ترس اور ہمدری کرنا تو کب کا چھوڑ دیا تھا۔۔۔۔۔پھر کیوں کیا اس نے ایسا۔۔۔۔۔؟؟؟؟اس کیوں کا جواب فلحال اس کے پاس نہ تھا۔۔۔
اپنی اس حرکت پر وہ خود بھی حیران تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
          …………………………………………………
یہ تھی ضرار شاہ کی پیچھلی زندگی کی کہانی جس میں سیمل فاروق نامی لڑکی ہوا کے جھونکے کی مانند آئی اور چلی بھی 
گئی۔۔۔۔۔۔
اور اُسے ایک نئے ضرار شاہ میں بدل کر ناجانے اپنے اُس---------کیساتھ کہاں گئی۔۔۔
ضرار نے ڈائیورس پیپرز فصی کے گھر پہنچا دیے تھے۔۔۔۔۔آگے سیمل کیساتھ کیا ہوا ضرار کو اس سے کوئی سروکار نہ تھا۔۔۔۔اور ہونا بھی نہیں چاہیے تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
            …….…………………………………………
ابیہا نے ایک پرائیوٹ سکول میں جاب شروع کر دی تھی۔۔۔شام کو بچوں کو ٹیوشن بھی دیتی مگر ان چند ہزار روپوں سے گھر کا خرچ بہت مشکل سے کھینچ کھینچ کے
 ہو رہا تھا۔۔۔۔۔
وہ بہت سی جگہوں پر اپلائی کر چکی تھی مگر جن جگہوں پر وہ انٹرویو دینے گئی۔۔۔۔ وہاں کے آفیسرز کی نظروں میں اپنے لیے ہوس دیکھ کر وہ پیچھے ہٹ گئی۔۔۔۔۔وہ پھر سے ایسی جگہ جاب کر کے کسی دلدل میں پھنسنا نہیں چاہتی تھی۔۔۔۔۔جہاں سے اس پاک پروردگا نے اس فرشتے کو بھیج کر نکال لیا تھا۔۔۔۔
وہ کون تھا ۔۔۔۔؟؟؟ ابیہا اکثر سوچتی مگر اسے تلاش کرنے میں کامیاب نا ہو سکی۔۔۔وہ تلاش بھی کہاں کرتی کوئی سراغ ہی نہیں تھا اس کے پاس اس شخص کا۔۔۔اور جو نشانی تھی وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اکثر اپنے ہاتھوں کو چھو کر  اُس کے لمس کو محسوس کرتی تھی مگر یہ لمس بھی اس مہرباں کو تلاش کرنے میں مددگار ثابت نہیں ہو سکتا تھا۔۔۔۔
        ………………………………………………
ابیہا آج سرمد اینڈسٹریز میں انٹرویو دینے آئی تھی۔۔۔۔۔مگر وہاں موجود رنگ برنگی ماڈرن لڑکیوں کو دیکھ کر مایوس ہو چکی تھی۔۔۔۔۔۔
اس کا نمبر بیسواں تھا۔۔۔۔۔۔مگر پندرہ نمبر پورے ہونے کے بعد ایک ماڈ سی لڑکی پروفیشنل مسکراہٹ کیساتھ باقی کینڈیڈیٹس سے معذرت کر گئی تھی کہ ان کا انٹرویو کل ہو گا۔۔۔۔
وہاں موجود اکثر لڑکیاں چیخی چلائیں کہ چار، پانچ گھنٹے بیٹھانے کے بعد انہیں کل پر ٹرخا دیا گیا تھا مگر ابیہا جانتی تھی اس 
آہ و بکا کا کوئی فائدہ نہیں۔۔۔۔۔یہ امیروں کی دنیا ہے جہاں غریبوں کی مجبوریوں کو سمجھنے والا کوئی نہیں۔۔۔۔
وہ پرس اٹھاتی چادر درست کرتی باہر 
نکلی۔۔۔۔۔اور تیز تیز قدم اٹھاتی بس اسٹاپ کی طرف بڑھی۔۔۔
وہ اسٹاپ پر کھڑی بس کا انتظار کر رہی تھی جو پتا نہیں کب آنی تھی۔۔۔
بیس منٹ انتظار کے بعد وہ بے زاری سے آگے بڑھنے لگی تاکہ  ٹیکسی لے کر گھر جا سکے۔۔۔
مگر ٹیکسی والوں کا کرایہ سن کر وہ بیچاری سی شکل بنا کر سڑک کنارے فٹ پاتھ پر کھڑی ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔۔کہ 
اچانک اس کی نظر سامنے موجود اسلام آباد کے مہنگے ترین کیفے کے ایگزیٹ پر پڑی۔۔۔۔
جہاں سے ضرار شاہ اپنے دلکش سراپے سمیت مغرور چال چلتا سیڑھیاں اتر رہا تھا۔۔۔
ابیہا کو شک گزرا کہ یہ وہی ہے جسے وہ ڈھونڈ رہی ہے۔۔۔۔اس نے ضرار کو اسٹریٹس لائٹ کی مدھم روشنی میں دیکھا تھا 
اور اب وہ اسے دن کے اجالے میں دیکھ رہی تھی۔۔۔۔مگر اس کا شک یقین میں دل کی گواہی پر بدلا کہ یہ وہی شخص ہے۔۔۔۔۔وہ ٹریفک کی پرواہ کیے بغیر سڑک کی دوسری طرف جانے کو بھاگی۔۔۔۔
سنو۔۔۔۔رکو۔۔۔۔۔پلیز میری بات سن لو۔۔۔۔۔اوووو
رکو سنو میری بات۔۔۔رک جاؤ پلیز۔۔۔۔۔ابیہا چلاتی ہوئی جا رہی تھی
 مگر گاڑیوں کے بےہنگم شور کیوجہ سے یہ آواز ضرار شاہ تک پہنچنے میں ناکام رہی۔۔۔۔
وہ گاڑی میں بیٹھا اور زن سے گاڑی بھگا لے گیا۔۔۔۔
ابیہا اس جگہ پر پہنچ کر خالی ہاتھ لیے اپنی ناہموار سانسوں کو ہموار کرنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
             ………………………………………………
ابیہا نے اپنا سانس بحال کیا اور جلدی سے اس کیفے کی طرف بڑھی جہاں سے وہ ابھی نکل کر گیا تھا۔۔۔۔۔
وہاں داخل ہو کر امیر امیر حلیے کے لوگوں کو دیکھ کر کنفیوز ہوئی مگر پھر بھی ہچکچاتی ہوئی جلدی سے ریسپشن کی طرف گئی
اسلام وعلیکم۔۔۔۔۔اس نے پھولی سانس سے کہا
وہاں موجود لڑکے نے سر ہلا کر جواب دیا
وہ ایکچولی مجھے کچھ پوچھنا تھا آپ سے۔۔۔وہ ہچکچائی
جی پوچھیں۔۔۔۔وہ لڑکا حیران سا بولا
وہ۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔ابھی دس منٹ پہلے یہاں سے ایک آدمی باہر گیا ہے کیا آپ ان کا نام بتا سکتے ہیں مجھے۔۔۔۔۔
لڑکا اسکی بات سن کر مسکرایا۔۔۔۔۔میڈم یہاں سے دس منٹ میں دس آدمی باہر نکلے ہیں۔۔۔مجھے کیا پتہ آپ کس کا پوچھ رہی ہیں۔۔
نن۔۔۔۔نہیں وہ ۔۔۔۔وہ جس نے بلیک تھری پیس پہنا تھا اور براؤن بال تھے اُسکے۔۔۔۔وہ ہکلائی
ہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔آپ مڑ کر دیکھیے کتنے لوگوں نے بلیک تھری پیس پہن رکھا ہے اور بال بھی براؤن ڈائی کروا رکھے ہیں۔۔۔
اگر آپ نہیں جانتے تو سیدھی طرح سے بتا دیں فضول بات کو کیوں بڑھا رہے ہیں۔۔۔ابیہا کو اسکے مسلسل ہسنے نے آگ لگائی
ارے آپ تو مائنڈ کر گئیں۔۔۔۔سوری۔۔۔
مگر میں آئندہ اس حلیے کے لوگوں پر نظر رکھوں گا جہاں کہیں مطلوبہ شخص نظر آیا آپ کو فوًرا انفارم کر دوں گا اس لیے مجھے اپنا سیل نمبر دے دیں۔۔۔۔۔وہ ڈھٹائی سے کہتا آنکھ دبا گیا 
لعنت ہو تم پر کمینے۔۔۔۔ابیہا اسکی بات سمجھ کر چلائی۔۔۔
بے غیرت نہ ہو تو۔۔۔۔وہ بڑبڑاتی ہوئی مڑی۔۔۔اسے اپنے پیچھے اس لوفر کی ہنسی سنائی دی۔۔۔۔۔
       …………………………………………………
ضرار صاحب حویلی سے فون آیا تھا۔۔۔۔۔بڑی بی بی کا۔۔۔۔۔۔
وہ کوٹ اتار رہا تھا جب نواز (ملازم) نے اطلاع دی
خیریت۔۔۔۔۔
جی وہ آپ کا سیل بند تھا شاید اس لیے لینڈ لائن پر کال کی۔۔۔
ہونں۔۔۔۔۔۔میں کرتا ہوں کال ۔۔۔تم ایسے کرو کھانا لگا دو بھوک لگی ہے۔۔۔۔ آج لنچ بھی نہیں کیا۔۔۔۔۔
جی۔۔۔۔۔میں لگواتا ہوں ابھی ۔۔۔۔نواز سر ہلاتا چلاگیا
ضرار نے سیل پر حویلی کا نمبر ڈائل کیا اور اماں جان سے بات کرنے لگا۔۔۔۔
نہیں۔۔۔۔ناں۔۔۔۔اچھا سوری معاف کر دیں میں آ رہا ہوں کل۔۔۔۔
جی۔۔۔جی پکا۔۔۔۔وہ مسکرایا
انشا اللّہ کل شام آپ کے پاس ہوں گا اماں جان۔۔۔۔اوکے ٹیک کئیر خدا حافظ
وہ سیل ٹیبل پر رکھتا سیٹی بجاتا واش روم چلا گیا۔۔۔۔
اماں جان سے بات کر کے اس کا موڈ فریش ہو چکا تھا۔۔۔
        .…...………………………………………
ابیہا عشاء کی نماز پڑھ کر ہٹی تھی جب نیہا اس کے پاس آئی۔۔۔
کیا ہوا ہے پریشان لگ رہی ہو۔۔۔۔
نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔۔۔۔وہ دوپٹہ اتارتی الماری کی طرف بڑھی
تو پھر کھانا کیوں نہیں کھایا۔۔
ویسے ہی بھوک نہیں تھی۔۔۔
بھوک کیوں نہیں تھی۔۔۔۔تکرار ہوئی
نیہا میری ماں مت بنو سمجھی۔۔۔۔ابیہا غصے سے بولی
دیکھا۔۔۔۔کوئی نہ کوئی بات ہے ضرور جو اس طرح کاٹ رہی ہو۔۔۔۔
انتہائی بدتمیز ہو تم۔۔۔۔ابیہا مڑی
تھینکس ۔۔۔۔۔وہ مسکرائی۔۔۔۔اچھا اب بتا دو کیا ہوا ہے۔۔۔۔۔کیونکہ میں جانتی ہوں تم انٹرویو کی وجہ سے اپ سیٹ نہیں ہو۔۔۔ایسے ہزاروں انٹرویو دیے ہیں تم نے ۔۔۔اس لیے اصل وجہ بتاؤ۔۔۔۔نیہا نے اسے کندھوں سے پکڑ کر بیڈ پر بٹھایا اور خود بھی ساتھ بیٹھی۔۔۔۔
ابیہا کہ پاس اب بتانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔۔۔۔
وہ نیہا آج میں نے اُسے دیکھا۔۔۔۔
کسے۔۔۔۔۔۔؟؟وہ ہونق بنی
ڈفر اُسے جس کا کوئی اتہ پتہ نہیں ہے ہمارے پاس۔۔۔۔
سچ۔۔۔۔وہ۔۔۔وہ پیسوں والا فرشتہ۔۔۔نیہا اچھلی
ہاں وہی۔۔۔۔
پھر کیا ہوا۔۔۔۔بات ہوئی اس سے ۔۔۔۔کیا نام تھا اس کا ۔۔۔تمہیں کہاں ملا وہ۔۔۔۔نیہا ایک ہی سانس میں بولی
کوئی بات نہیں ہوئی اس سے۔۔۔۔اور نہ ہی نام پتہ چلا۔۔۔۔وہ افسردہ ہوئی
تو پھر۔۔۔۔۔؟؟؟
پھر یہ کہ جب تک میں اسکی گاڑی تک پہنچی وہ چلا گیا تھا۔۔۔۔
میری آواز بھی اس تک نہیں پہنچی۔۔۔۔۔۔کیفے سے پتا کیا مگر وہاں جو ریسپشن پر لڑکا کھڑا تھا بہت ہی بدتمیز تھا اپنی ہی لائن مارنے لگا۔۔۔ایڈیٹ۔۔۔۔ابیہا نے دانت کچکچائے
لو جی اب پھر سے وہی آنکھ مچولی۔۔۔اتنی مشکل سے تو نظر آیا تھا
ہاں مگر میں اسے دیکھ کر اردگرد کی پرواہ کیے بغیر چلاتی بھاگی اس کے پیچھے۔۔۔۔ مگر وہ لینڈلارڈ اپنی چمچماتی گاڑی میں بیٹھا اور چلا گیا۔۔۔۔
میرا گلا ابھی تک دکھ رہا ہے چلانے کی وجہ سے۔۔۔لوگ بھی مجھے پاگل ہی سمجھ رہے ہوں گے۔۔۔۔
گولی مارو لوگوں کو پر بیا اب کہاں سے ڈھونڈیں گے ہم اسے۔۔۔۔جب سے امی کو
 پتا چلا ہے۔۔۔۔۔ وہ اٹھتے بیٹھتے اس نامعلوم کو ہی یاد کرتیں رہتی ہیں ۔۔۔۔ہمیں تو کوئی ایسی جگہ بھی نہیں پتا جہاں کنفرم ہو کہ وہ جاتا ہے۔۔۔۔۔نیہا نے پریشانی سے کہا
مگر نیہا کی بات میں ابیہا کو اس نامعلوم شخص کی موجودگی والی جگہ کا سراغ مل چکا تھا۔۔۔۔۔
جی ہاں۔۔۔۔۔ابیہا کہ دماغ میں نائٹ کلب کا جھماکا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔

   1
0 Comments